About
نور الحق حصّہ اوّل کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت عاجزانہ رنگ میں اللہ تعالی سے مدد کے لئے ایک لمبی دعا کی ہے۔ اس دعا پر بمشکل ایک ماہ گزرا ہوگا کہ اللہ تعالی نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور سورج چاند کا گرہن جس کی احادیث نبویہ میں خبر دی گئی تھی کہ سچّے مہدی کے ظہور کی یہ علامت ہوگی کہ ماہ رمضان میں تیرھویں رات کو اس کے پہلے حصّہ میں چاند گرہن اور ۲۸؍رمضان کو سورج گرہن ہوگا۔ اور قرآن مجید کی آیت وَخَسَفَ الۡقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمۡسُ وَالۡقَمَرُ میں بھی اسی گرہن کی طرف اشارہ تھا۔ اور اسی طرح انجیل متی اور یوئیل نبی کی کتاب وغیرہ اور صلحائے امت محمدؐیہ کی کتب میں بھی اس کا تذکرہ پایا جاتا تھا۔ اور حضرت نعمت اللہ ولی اور حافظ محمد صاحب لکھوکے والے نے صاف طور پر اس گرہن کو مہدی کے ظہور کی علامت قرار دیا تھا۔ اور ملتان کے ایک مشہور ولی کامل حضرت شیخ محمد عبدالعزیز پرہاوری نے تو ازروئے الہام یہ خبر بھی دے دی تھی کہ یہ نشان ۱۳۱۱ھ میں ظاہر ہوگا۔ سو اس مشہور و معروف پیشگوئی کے مطابق جو مختلف زمانوں میں کتابوں میں شائع ہوتی رہی۔ اور جو شیعہ اور سنی دونوں کے کتب حدیث میں ظہور مہدی کی علامت قرار دی گئی تھی ۲۰؍ مارچ۱۸۹۴ء کو چاند گرہن اور ۶؍اپریل۱۸۹۴ء کوسورج گرہن ہوا۔ اور جیسا کہ آپ نے دعا کی تھی۔ اللہ تعالی نے آسمان سے نصرت نازل فرمائی اور آپ کی صداقت پر چاند اور سورج کو دو آسمانی شاہد بنا دیا۔ اور اس نشان کا ظہور بالکل یوم بدر کے نشان کی طرح ہوا جسے قرآن مجید میں یوم الفرقان کا نام دیا گیا ہے۔ یہ چاند اور سورج کا گرہن جسے ہزار سال سے صادق مہدی کی شناخت کا معیار قرار دیا جاتا تھا۔ جب ظاہر ہوا تو مولویوں نے ہدایت حاصل کرنے کی بجائے ازراہ تعصّب قسم قسم کے اعتراضات شروع کر دیے۔ کبھی حدیث کو ضعیف اور مجروح قرار دیا۔ اور کبھی کہا کہ اس کے راویوں میں سے بعض راوی فاسق اور مبتدع اور وضاع ہیں۔ اور کبھی کہا کہ حدیث کے الفاظ کے مطابق رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن نہیں ہوا۔ تب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نور الحق حصّہ دوم تحریر فرمایا۔ جس میں آپ نے اس نشان کا ایک بے نظیر نشان ہونا ثابت کیا۔ اور علماء کے ان تمام اعتراضات کے جوابات معقول اور مدلل طریق سے بہ شرہ و بسط تحریر فرمائے اور فرمایا کہ حدیث سے متعلقہ خسوف و کسوف ایک نہایت عظیم الشان غیبی خبر پر مشتمل ہے۔ اور پہلے زمانوں میں کسی مدعی مہدویت یا ماموریت کے لیے ایسا خسوف اور کسوف کبھی بھی بطور نشان ظاہر نہیں ہوا۔ اور میں ایسے شخص کو ایک ہزار روپیہ انعام دوں گا جو یہ ثابت کر دے گا کہ ماہ رمضان کی انہی تاریخوں میں جو حدیث میں مذکور ہیں کسی مدعی مہدویت اور ماموریت کے لیے خلق آدم سے لے کر آج تک کبھی ایسا خسوف کسوف ہوا ہے۔ نیز آپ نے اس شخص کے لیے بھی ایک ہزار روپیہ انعام مقرر فرمایا جو کتب لغت اور اشعار عرب وغیرہ سے یہ ثابت کرے کہ پہلی تاریخ کے چاند کو قمر کہا جاتا ہے۔ مگر ان انعامات کو حاصل کرنے کے لیے کسی کو جرات نہ ہوئی۔
All Formats
Share
page
of
482