About
نومبر ١٩٠٢ء میں بٹالوی اور چکڑالوی کے مابین مباحثہ ہوا۔ مولوی عبداللہ صاحب چکڑالہ ضلع میانوالی کے رہنے والے تھے اپنے آپ کو اہل قرآن کہتے تھے اور حجّیت حدیث کے منکر تھے۔ ان کے مد مقابل مولوی محمد حسین بٹالوی حدیث کو قرآن پر بھی قاضی ٹھہراتے تھے گویا چکڑالوی صاحب نے احادیث کے بارے میں تفریط کا اور مولوی بٹالوی صاحب نے افراط کا راستہ اختیار کیا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے ان کے مباحثہ پر محاکمہ کرتے ہوئے اس رسالہ میں تحریر فرمایا:
’مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کے لیے تین چیزیں ہیں۔
(۱) قران شریف جو کتاب اللہ ہے۔۔۔
(۲) دوسری سنت۔۔۔سنّت سے مراد ہماری صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اور ابتداء سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی.۔۔۔
(۳) تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے اور حدیث سے مراد ہماری وہ آثار ہیں کہ جو قصّوں کے رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قریبا ڈھیر سو برس کے بعد مختلف راویوں کے ذریعوں سے جمع کیے گئے۔۔۔
پس مذہب اسلم یہی ہے کہ نہ تو اس زمانہ کے اہلحدیث کی طرح حدیثوں کی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے کہ قرآن پر وہ مقدّم ہیں۔۔۔ اور نہ حدیثوں کو مولوی عبداللہ چکڑالوی کے عقیدہ کی طرح محض لغو اور باطل ٹھہرایا جائے بلکہ چاہیے کہ قرآن اور سنّت کو حدیثوں پر قاضی سمجھا جائے اور جو حدیث قرآن اور سنّت کے مخالف نہ ہوں اس کو بسر و چشم قبول کیا جاوے یہی صراطِ مستقیم ہے۔‘
All Formats
Share
page
of
526