About
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰؍جولائی ۱۹۰۰ء کو حق و باطل میں امتیاز کرنے کے لیے لاہور میں ایک جلسہ کر کے اور قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورہ نکال کر بعد دعا چالیس آیات کے حقائق اور معارف فصیح و بلیغ عربی میں سات گھنٹے کے اندر لکھنے کے لیے تمام علماء کو عموماً اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو خصوصاً دعوت دی تھی۔ مگر کسی نے اس چیلنج کو قبول نہ کیا اور نہ ہی پیر مہر علی شاہ صاحب نے اس اعجازی مقابلہ یعنی بالمقابل قرآنی آیات کی فصیح بلیغ عربی میں تفسیر لکھنے کی دعوت قبول کی تھی۔ لیکن بغیر اطلاع دیئے لاہور پہنچ کر اور مباحثہ کی شرط لگا کر اس نے لوگوں کو یہ دھوکا دیا تھا کہ گویا وہ بالمقابل تفسیر لکھنے کے لیے تیار ہیں۔ جب اُن کے مریدوں نے ہر جگہ ان کی جھوٹی فتح کا نقّارہ بجایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گندی گالیاں دیں اور یہ مشہور کیا کہ پیر صاحب تو سچے دل سے بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کے لیے تیار ہو گئے تھے اور اسی نیت سے لاہور تشریف لے گئے تھے لیکن خود دعوت دینے والے لاہور نہ پہنچے اور بھاگ گئے اس لیے آپؑ نے اپنے اشتہار ۱۵؍دسمبر۱۹۰۰ء مندرجہ اربعین نمبر۴ میں بالقاء ربّانی تفسیر لکھنے کے لیے ایک اور تجویز پیش کی۔
اِس اعلان کے مطابق اللہ تعالی کے فضل اور اس کی خاص تائید سے حضرت اقدس علیہ السلام نے مدت معیّنہ کے اندر ۲۳؍فروری ۱۹۰۱ء کو ’اعجاز المسیح‘ کے نام سے فصیح و بلیغ عربی زبان میں سورہ فاتحہ کی تفسیر شائع کر دی۔ اور اس تفسیر کے لکھنے کی غرض یہ بیان فرمائی کہ تا پیر مہر علی شاہ صاحب کا جھوٹ ظاہر ہو کہ وہ قرآن مجید کا علم رکھتا ہے اور چشمۂ عرفان سے پینے والا اور صاحب خوراک و کرامات ہے۔ مگر پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو اپنے گھر بیٹھ کر بھی بالمقابل تفسیر لکھنے کی جرات نہ ہوئی اور اپنی خاموشی سے اعتراف شکست کرتے ہوئے اپنے جاہل اور کاذب ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے باعلامِ الہی اپنی اس تفسیر کے متعلق لکھا کہ اگر ان کے علماء اور حکماء اور فقہاء اور ان کے باپ اور بیٹے متفق اور ایک دوسرے کے معاون ہو کر اتنی قلیل مدت میں اس تفسیر کی مثل لانا چاہیں تو وہ ہرگز نہیں لا سکیں گے۔
All Formats
Share
page
of
784