About
۱۸۹۶ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب انجام آتھم میں جن سجادہ نشینیوں کو دعوت مباہلہ دی تھی ان میں پیر مہر علی شاہ گولڑوی کا نام بھی تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ پیر صاحب پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں حسن زن رکھتے تھے۔ چنانچہ ۹۷ـ۱۸۹۶ء کی بات ہے کہ ان کے ایک مرید بابو فیروز علی اسٹیشن ماسٹر گولڑہ نے (جو بعد ازاں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہو گئے تھے) جب پیر صاحب سے حضرت اقدسؑ کی بابت رائے دریافت کی تو انہوں نے بلا تامّل آپؑ کو مذاہب باطلہ کے خلاف شمشیر بّراں اور تائید یافتہ قرار دیا۔
لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد آپ میدانِ مخالفت میں آگئے اور جنوری ۱۹۰۰ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اردو میں ’شمس الهدایه فی اثبات حیات المسیح‘ نامی کتاب شائع کی جو درحقیقت ان کے ایک مرید مولوی محمد غازی کی تعلیف کردہ تھی جس کا انہوں نے اپنے ایک خط بنام حضرت مولوی حکیم نور الدینؓ مورخہ ۲۶؍ شوال ۱۳۱۷ ہجری (مطابق ۲۸؍مارچ۱۹۰۰ء) تذکرہ بھی کر دیا۔ جب اس خط کا چرچا ہوا تو پیر صاحب نے اپنے ایک مرید کے سوال پر ایسا ظاہر کیا کہ گویا انہوں نے یہ خود کتاب لکھی ہے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ پیر صاحب کی اس دو رنگی پر خاموش نہ رہ سکے اور آپ نے ۲۴؍اپریل۱۹۰۰ء کے اخبار الحکم میں یہ سب مراسلات شائع کر دیئے۔ جس پر اُن کے مریدوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ اور ادھر مولوی محمد احسن صاحب امروہیؓ نے ’شمس الہدایہ‘ کا جواب ’شمس بازغہ‘ کے نام سے شائع کر دیا۔ چونکہ ’شمس الہدایہ‘ کے آخر میں مباحثہ کی دعوت بھی دی گئی تھی اس لیے مولوی صاحب نے بتاریخ ۹؍جولائی۱۹۰۰ء بذریعہ اشتہار پیر صاحب کو اطلاع دے دی کہ میں مباحثہ کے لیے تیار ہوں۔
پیر صاحب کی مخالفت اور پھر فریقین کی طرف سے تفسیر نویسی کے مقابلہ سے متعلق جو اشتہارات شائع ہوئے مکرم مولوی دوست محمد صاحب نے ان کا تاریخ احمدیت میں ذکر کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰؍جولائی۱۹۰۰ء کو حق و باطل میں امتیاز کرنے کے لیے تفسیر نویسی میں علمی مقابلہ کرنے کے لیے دعوت دی اور فرمایا۔ لاہور جو پنجاب کا صدر مقام ہے وہاں ایک جلسہ کر کے اور قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورہ نکال کر دُعا کر کے چالیس آیات کے حقائق اور معارف فصیح اور بلیغ عربی میں فریقین عین اسی جلسہ میں سات گھنٹے کے اندر لکھ کر تین اہل علم کے سپرد کریں جن کا اہتمام، حاضری و انتخاب پیر مہر علی شاہ صاحب کے ذمہ ہوگا۔ پیر صاحب نے اس چیلنج کو معہ شرائط قبول تو نہ کیا البتہ بغیر تعیین تاریخ اور وقت چپکے سے لاہور پہنچ کر ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھا کہ اوّل ہم نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کی رو سے بحث کریں گے اس میں اگر تم مغلوب ہو جاؤ تو ہماری بیعت کر لو۔ اور پھر بعد اس کے ہمیں وہ (تفسیری) اعجازی مقابلہ بھی منظور ہے۔
حضرت اقدسؑ نے پیر صاحب کی اس پُر فریب چال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بھلا بیعت کر لینے کے بعد اعجازی مقابلہ کرنے کے کیا معنے؟ نیز فرمایا کہ انہوں نے تقریری مباحثہ کا بہانہ پیش کر کے تفسیری مقابلہ سے گریز کی راہ نکالی ہے اور لوگوں کو یہ دھوکا دیا ہے کہ گویا وہ میری دعوت کو قبول کرتا ہے۔ حالانکہ میں انجام آتھم میں یہ مستحکم عہد کر چکا ہوں کہ آئندہ ہم مباحثات نہیں کریں گے۔ لیکن انہوں نے اس خیال سے تقریری بحث کی دعوت دی کہ ’اگر وہ مباحثہ نہیں کریں گے تو ہم عوام میں فتح کا ڈنکا بجائیں گے۔ اور اگر مباحثہ کریں گے تو کہہ دیں گے کہ اس شخص نے خدا تعالی کے ساتھ عہد کر کے توڑا۔‘
حقیقت میں نہ پیر صاحب اتنی علمی قابلیت رکھتے تھے کہ وہ ایسی تفسیر لکھتے اور نہ ہی انہیں اس اعجازی مقابلہ کے لیے میدان میں نکلنے کی جرات ہوئی۔ اِسی اثنا میں آپؑ نے تحفہ گولڑویہ کتاب لکھی جس میں آپ نے اپنے دعویٰ کی صداقت پر زبردست دلائل دیے اور نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے ثابت کیا کہ آنے والے مسیح موعود کا امتِ محمدیہ میں ظاہر ہونا ضروری تھا اور اس کے ظہور کا یہی زمانہ تھا جس میں اللہ تعالی نے مجھے مبعوث فرمایا ہے۔
All Formats
Share
page
of
569