About
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علماء ہند کے تعصب اور انکارِ حق پر اصرار کو دیکھ کر شام اور مصر وغیرہ کے علماء کی طرف توجہ فرمائی کہ شاید ان میں سے کوئی تائیدِ حق کے لیے کھڑا ہو جائے۔ شام کے متعلق معلوم ہوا کہ وہاں دینی مناظرات کی اجازت نہیں اس لیے آپؑ نے جہاں مصر کے بعض علماء اور مدیرانِ جرائد و مجلّات کو اعجاز المسیح کے چند نسخے ارسال کیے وہاں ایک نسخہ تقریظ کے لیے الشیخ محمد رشید رضا مدیر المنار کو بھی بھجوایا۔ مناظر اور الھلال کے مدیران نے تو اس کی فصاحت و بلاغت کی بہت تعریف کی مگر الشیخ محمد رشید رضا نے نحویوں اور ادبیوں کے استشہاد پیش کیے بغیر لکھ دیا کہ کتاب سہو و خطا سے بھرپور ہے اور اس کے سجع میں بناوٹ سے کام لیا گیا ہے۔ اور لطیف کلام نہیں۔ اور عرب کے محاورات کے خلاف ہے اور ستّر دن کی مدّت جو آپؑ نے اس کی مثل لانے کے لیے مقرر کی تھی اس کا ذکر کر کے اس نے یہ لاف زنی کی کہ بہت سے اہل علم اس سے بہتر سات دن میں لکھ سکتے ہیں۔
جب اس کا یہ ریویو ہندوستان میں شائع ہوا تو علمائے ہند نے اس کی آڑ لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف از سر نو مخالفت کا ایک طوفان برپا کر دیا۔ تب آپؑ نے احقاق حق اور ابطال باطل اور اتمام حجت کے لیے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی چاہی تو آپ کے دل میں یہ ڈالا گیا کہ آپ اس مقصد کے لیے ایک کتاب تالیف فرمائیں اور پھر مدیر المنار اور ہر اس شخص سے جو ان شہروں سے مخالفت کے لیے اٹھے اس کی مثل طلب کریں۔ چنانچہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت تضرّع اور خشوع و خضوع سے دعا کی یہاں تک کہ قبولیت دعا کے آثار ظاہر ہوئے۔
جب کتاب شائع ہوئی اور اس کا ایک نسخہ شیخ رشید رضا صاحب کو بھی ہدیتاً بھجوایا گیا تو انہوں نے الهدیٰ سے قبرِ مسیح سے متعلق مضمون کا بہت سا حصّہ نقل کر کے جو مسیحؑ کی کشمیر کی طرف ہجرت سے متعلق تھا اپنے رسالہ المنار میں نقل کر کے لکھا کہ ایسا ہونا عقلاً اور نقلاً مستبعد نہیں ہے۔ لیکن انہیں یہ توفیق نہ ملی کہ اس کے جواب میں ایسی فصیح و بلیغ کتاب لکھ کر آپؑ کی پیشگوئی کو باطل ثابت کرتے۔
اس کتاب کی تالیف ربیع الاول ۱۳۲۰ ہجری میں مکمل ہوئی اور ۱۲؍جون۱۹۰۲ء کو چھپ کر شائع ہوئی۔
All Formats
Share
page
of
784