قیامت کے روز اوّلین و آخرین کے اجتماع میں لباس تقویٰ ہی کام آئے گا۔ (۲ دسمبر ۱۹۱۱ بمقام قادیان)
اعلاء کلمة اللہ کے لئے اولاد کی قربانی اور اسکی اہمیت (۳۱ اکتوبر ۱۹۱۴ بمقام قادیان)
عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ میں کیا تعلیم دی گئی ہے۔ (۲۰ اکتوبر ۱۹۱۵ بمقام قادیان)
خداتعالیٰ کی راہ میں پیش کے جانے والی سچی قربانی رائیگاں نہیں۔ (۹ اکتوبر ۱۹۱۶ بمقام قادیان)
حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ کی عیدالاضحیٰ سے مشابہت۔ (۲۸ ستمبر ۱۹۱۷ بمقام شملہ)
دین و دُنیا کی ترقی قربانیوں کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی (۱۷ ستمبر ۱۹۱۸ بمقام قادیان)
قربانی وہی ہے جسے خداتعالیٰ قبول کرے۔ (۶ ستمبر ۱۹۱۹ بمقام قادیان)
عیدالاضحیٰ ایک عظیم الشان قربانی کی یادگار ہے۔ (۲۶ اگست ۱۹۲۰ بمقام ڈلہوزی)
مسائل عید و قربانی۔ (۱۵ اگست ۱۹۲۱)
قربانی کے احکام اور اُن کی حکمت (۵ اگست ۱۹۲۲ بمقام قادیان)
خطبات کی عظمت اُن کے طوالت کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکی اس اخلاص کی وجہ سے ہوتی ہے جس سے سُنانے والا سُنائے اور سُننے والا سُنے۔ (۲۵ جولائی ۱۹۲۳ بمقام قادیان)
دینی اغراض کے لئے جو سفر اختیار کیا جاتا ہے، اس کی کامیابی اک انحصار مجاہدہ اور دعاؤں کی قبولیت پر ہے۔ (۱۴ جولائی ۱۹۲۴)
دُنیا میں وہی قوم زندہ و پائندہ رہ سکتی ہے جو نسلاً بعد نسلٍ اپنی اولاد کی تربیت اور اخلاق کا خیال رکھتی اور اُن میں قربانیوں کی رُوح پیدا کرتی ہے۔ (۲ جولائی ۱۹۲۵ بمقام قادیان)
عیدالاضحیٰ حضرت ابراہیمؑ کی عظیم قربانی کی یادگار ہے جو اپنے اندر یہ سبق رکھتی ہے کہ قوموں کی ترقی کا راز اُن کی قربانیوں میں مضمر ہے۔ (۲۲ جون ۱۹۶۲)
عید کی قربانی میں تربیتِ اولاد کا سبق۔ (۱۱ جون ۱۹۲۷ بمقام قادیان)
عیدالاضحیٰ اس عزم کا اظہار ہے کہ رضائے الٰہی کے حصول کے لئے جان و مال حتّٰی کہ اولاد تک کو قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ (۳۰ مئی ۱۹۲۸ بمقام قادیان)
عیدِ قُربان کُلّی طور پر خدمتِ دین میں محو ہو جانے کی یادگار ہے۔ (۲۰ مئی ۱۹۲۹ بمقام قادیان)
جماعتِ احمدیہ کے قیام کی اصل غرض اور اس کے حصول کے لئے قربانی کی اہمیت۔ (۱۰ مئی ۱۹۳۰ بمقام قادیان)
۲۹ اپریل ۱۹۳۱
قربانیوں کی عید یہ سبق دیتی ہے کہ دینی مقاصد کے حصول کے لئے بڑی سے بڑی قربانی سے کبھی دریغ نہ کیا جائے۔ (۱۷ اپریل ۱۹۳۲ بمقام قادیان)
اشاعتِ اسلام اور ابراہیمی سُنّت پر عمل کرنیکی ضرورت۔ (۶ اپریل ۱۹۳۳ بمقام قادیان)
قربانی اور اس کے ثواب کا دارومدار ہر انسان کے حُسنِ نیت اور خلوصِ دل پر ہے۔ (۲۶ مارچ ۱۹۳۴ بمقام قادیان)
خداتعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرنا ہی حقیقی عید ہے۔ (۱۶ مارچ ۱۹۳۵ بمقام قادیان)
اسلام کی عالمگیر ترقی کے لئے ہر احمدی مرد کو حضرت اسماعیلؑ اور ہر احمدی عورت کو حضرت ہاجرہؓ کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین۔ (۴ مارچ ۱۹۳۶ بمقام قادیان)
عیدالاضحیٰ تمثیلی رنگ میں ’’ابراہیم زندہ باد‘‘ کا نظارہ پیش کرتی ہے۔ (۲۲ فروری ۱۹۳۷ بمقام قادیان)
خداتعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے سے کبھی بُخل نہیں کرنا چاہیئے۔ (۱۱ فروری ۱۹۳۸ بمقام قادیان)
آباؤ اجداد کی طرف سے ورثہ میں ملنے والی خوشی استحقاق قربانی اور ایثار ہی کے ذریعہ قائم رہ سکتا ہے۔ (یکم فروری ۱۹۳۹ بمقام قادیان)
حقیقی عید یہی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی طرح اولاد کو خدمتِ دین کے لئے وقف کردیا جائے۔ (۲۰ جنوری ۱۹۴۰ بمقام قادیان)
اگر جماعتِ احمدیہ اولاد کی ترقی چاہتی ہے تو اسے خدا کی راہ میں قربان کرے۔ (۹ جنوری ۱۹۴۱ بمقام قادیان)
حضرت رسول اکرمؐ کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کی پیشگوئیاں۔ (۲۹ دسمبر ۱۹۴۱ بمقام قادیان)
۱۹ دسمبر ۱۹۴۲
۹ دسمبر ۱۹۴۳
اگر جماعت احمدیہ کا ہر فرد اسمائیلی نمونہ بن جائے تو دُنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی احمدیت کو نہیں مٹا سکتے۔ (۲۷ نومبر ۱۹۴۴ بمقام قادیان)
۱۸ نومبر ۱۹۴۵
عیدِ قربان یہ سبق سِکھاتی ہے کہ بوقتِ ضرورت خدا کی راہ میں صرف جانوں ہی کو نہیں، اموال کو بھی قربان کردیا جائے گا۔ (۵ نومبر ۱۹۴۲ بمقام قادیان)
عیدالاضحیہ غم بھول جانے کا سبق سکھاتی۔ اس لئے تقسیم ملک کی وجہ سے مبتلائے مصائب مسلمان بھائی تقدیر الٰہی کو خوشی سے قبول کریں اور مصائب و آلام کو ہمّت و استقلال سے برداشت کریں۔ (۲۶ اکتوبر ۱۹۴۷ بمقام لاہور)
سنّت ابراہیمی کے مطابق قومی اور دینی ترقی کے لئے وقفِ اولاد کی اہمیت۔ (۱۴ اکتوبر ۱۹۴۸ بمقام لاہور)
جماعت احمدیہ کی حقیقی عید یہ ہے کہ وہ اپنے خدا اور رسول کریمؐ کا زندہ ہونا ثابت کرے اور تبلیغ اسلام کی ایسی رُوح لے کر اُٹھے کہ اسلام دُنیا کے کونے کونے میں پھیل جائے۔ (۴ اکتوبر ۱۹۴۹ بمقام ربوہ)
عیدالاضحیٰ اللہ تعالٰی کے اس وعدہ کو یاد دلاتی ہے کہ وہ دینِ متین اسلام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا۔ (۲۳ ستمبر ۱۹۵۰ بمقام لاہور)
درُود شریف میں جس قربانی کے کرنے کی دعا کی جاتی ہے عیدالاضحیہ ہر سال اُسی کی یاد دلانے کے لئے آتی ہے۔ (۱۳ ستمبر ۱۹۵۱ بمقام ربوہ)
نماز، زکوٰة اور روزے کی طرح حج بھی ایک ضروری فریضہ ہے جس کی ادائیگی کیلئے ہر مسلمان کو اپنے دل میں ایک غیر معمولی جذبہ اور شوق پیدا کرنا چاہئیے۔ (یکم ستمبر ۱۹۵۲ بمقام ربوہ)
حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کوئی قصہ نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت اور مشعلِ راہ ہے جسے ہر سال عیدالاضحیہ کے ذریعہ امّت مسلمہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ (۲۱ اگست ۱۹۵۳ بمقام کراچی)
وہی قوم ترقی کرتی ہے جو خداتعالیٰ کے وعدوں کے پیش نظر دُنیا کو قربانی، اخلاق اور رُوحانیت کا درس دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی۔ (۱۰ اگست ۱۹۵۴ بمقام سندھ)
مکہ معظّمہ میں حضرت اسماعیلؑ نے توحید کا جو جھنڈا بلند فرمایا تھا، وہ قیامت تک قائم رہے گا۔ (۳۱ جولائی ۱۹۵۵ بمقام لندن)
عید الاضحیہ بڑی عظمتوں والی اور بے مثل عید ہے۔ (۱۹ جولائی ۱۹۵۶ بمقام ربوہ)
عیدالاضحیہ یہ سبق دیتی ہے کہ ہم اسلام کی تبلیغ کیلئے باہر نکل جائیں اور ویران دنیا کو رُوحانیت سے آباد کردیں تا ہمیں بھی اسماعیلی برکات سے حصہ وافر عطا ہو۔ (۹ جولائی ۱۹۵۷ بمقام ربوہ)
جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ دین کی راہ میں مسلسل قربانیوں کے ذریعہ اسلام کی نشاٴة ثانیہ کو قریب سے قریب کردیں۔ (۲۹ جون ۱۹۵۸ بمقام مری)