Ashkon Ke Chiragh

Table of Contents

    اشکوں کے چراغ
    ترتیب
    پیغام سید نا حضرت خلیلفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
    لوح ِدیباچئہ کتاب ِسخن
    غلام نوازیاں
    مکتوب گرامی
    حرف و حکایت (احمد ندیم قاسمی)
    سمت ہے اس کی نہ حد
    آؤ حسن ِیار کی باتیں کریں
    جاگ اے شرمسار! آدھی رات
    گِھرا ہوا تھا میں جس روز نکتہ چینوں میں
    مصروف ہے سینوں میں اک آذر پوشیدہ
    کانٹے ہیں اور پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے
    صلہ کوئی تو سر ِاوجِ دار دینا تھا
    اٹھتے اٹھتے نقاب چہروں کے
    تان کر چہروں کی چادر دھوپ کو ٹھنڈا کیا
    ہری بھری گلفام ہیں نیلی پیلی ہیں
    چاند نگر کے چشمے خون اگلتے ہیں
    تنہائی
    چراغِ دشت کی لو ہل گئی ہے
    ہجومِ رنگ سے گھبرا گئی ہے
    وہ بولتا ہے تو سارا جہان بولتا ہے
    مضطؔر جی ! اک کام کرونا
    اتنی مجبوریوں کے موسم میں
    ہم نے جب دو چار غزلیں گائیاں
    زیر ِلب کہیے، بر ملا کہیے
    بچہ سچّا کیوں لگتا ہے
    اندھیرا روشنی سے ڈر رہا ہے
    زمیں کا زخم بھی اب بھر رہا ہے
    گھر کے کواڑ زیرِ زباں بولنے لگے
    تیرے کوچے میں بکھر جاؤں اگر !
    اپنے اندر کی بھی سیاحت کر
    تلاشِ منزل
    مجھ کو مرے روبرو نہ کرنا
    فرقت کو وصال کر دیا ہے
    دل دیا ہے تو اب اتنا کر دے
    پھر کوئی طرفہ تماشا کر دے
    گلشن سے وہ جب نکل رہا تھا
    مَیں ہی تو نہیں پگھل رہا تھا
    آدھی رات کے آنسو! ڈھل
    روح کے جھروکوں سے اذنِ خود نمائی دے
    وہ اسم اگر تحریر کروں
    اشک چشمِ تر میں رہنے دیجیے
    بات سنتے نہ بات کرتے ہو
    موت ہے نہ حیات ہے یارو!
    کانٹا سا کھڑا ہے کوئی بن میں
    بات رانجھے کی نہ قصّہ ہیر کا
    عشق اس کے عہد میں بے دست و پا ہو جائے گا
    وہ ہنسنے کو تو ہنس رہا ہوئے گا
    برف
    جھگڑے ہے پھول پھول ، لڑے ہے کلی کلی
    احساس کو بھی جانچ ، نظر کو ٹٹول بھی
    مشتعل ہے مزاج کانٹوں کا
    انتخاب خلافت خامسہ کے بعد جس حسن کی تم کو جستجو ہے
    شرم سی کچھ ، حجاب سا کچھ ہے
    بے وفا سے وفا طلب کی ہے
    بادہ خواروں کو اذن ِبادہ ہے
    پھر تیرتبسّم کا نشانے پہ لگا ہے
    یادوں کی بارات لیے پھرتا ہوں میں
    اشکوں نے دل کی دیوار گرادی ہے
    قصیده لامیہ
    جاں بکف اشک بجام آئے گی
    وہ زمانہ بھی کیا زمانہ تھا
    اس کو اتنا نہ آزمانا تھا
    جلا کر مرا پہلے گھر احتیاطاً
    چلی مشین چلی
    وصل کے دن ہیں، رُت ہے الفت کی
    درد دے، درد کے خزانے دے
    کشتئہ تیغِ انا لگتا ہے
    دیں جدا دینے لگے، دنیا جدا دینے لگے
    مجھ سے کہتے ہیں یہ عاشق بانورے ( تضمین)
    لائی ہے بادِ صبا اُس پار سے خبر ِعظیم ( تضمین)
    تم کو بھی آتشِ نمرود میں جلتا دیکھوں
    نادان ! اپنے جہل پر مجھ کو نہ کر قیاس ( تضمین)
    نا اُمیدانہ سوچتا کیا ہے
    گفتگو کب کی بند ہے اب تو
    ہے سارا سوز، سارا ساز تیرا
    سب مومن تھے، تُو کافر تھا
    میرا گھر بھی تیرا گھر تھا
    تیل کے تالاب میں مچھلی کا منظر دیکھتے
    جسم اب بھی ہے، جان اب بھی ہے
    کوئی آواز کا بھوکا، کوئی پیاسا نکلے
    میں خطا کار بھی تھا، لائقِ تعزیر بھی تھا
    ورائے اشک اسے عمر بھر پکارا تھا
    اندھیرا اب ادھر شاید نہ آئے
    اندر آنکھیں، باہر آنکھیں
    تم عہد کے حالات رقم کیوں نہیں کرتے
    وہ بے ادب حدود سے باہر نکل گیا
    نہ میں اس سے ، نہ وہ مجھ سے ملا ہے
    شب ہائے بے چراغ کی کوئی سحر بھی ہو
    آنکھ میں جو آنسو لرزا تھا
    میں تھا یا میر ا سا یہ تھا
    خدمت کے مقام پر کھڑا ہوں
    بال جب آئنے میں آنے لگا
    پھر مجھے اندلس بلانے لگا
    تم کو بھی کوئی بد دعا لگتی
    اسے یہ ڈر ہے زمین پر آسماں گرے گا
    ہر ایک سے گلے ملا ، ہنس کر جدا ہؤا
    مجھ سے کہتی ہے یہ اب میری گراں جانی بھی
    اگر آتا نہ ہو انکار پڑھنا
    اپنوں کو بھی پکارے، غیروں کا دم بھرے بھی
    حدِ ادراک تک پھیلی ہوئی ہیں رنگ کی گلیاں
    یادوں کی گزر گئیں سپا ہیں
    کہتی ہیں یہ منتظر نگا ہیں
    روکے سے نہ رک سکیں گی آہیں
    دھرتی کو نہ آگ سے بیا ہیں
    حادثہ یوں تو ٹل گیا ہے بہت
    میں برا اور وہ بھلا ہے بہت
    چھوڑ کر عقل کی باتیں ساری
    شور ہونے لگا پتنگوں میں
    تھک کے واپس آگئی چشمِ سوال
    یار خود آ گیا قریب مرے
    کچھ تو دنیا بھی آنی جانی لگی
    مرابیاں ہے بہت مختصر بھی، سادہ بھی
    جانے کیا جی میں ٹھان بیٹھے ہیں
    ارمغاں ہے یہ پیر ِکامل کا
    دل کی منزل بھی سر نہ ہو جائے
    صبح ِعہدِ شباب ہو جیسے
    یوں سوالات سر میں رہتے ہیں
    حادثہ وہ جو اَب کے سال ہؤا
    کبھی بہار کوتر سے، کبھی خزاں سے ڈرے
    وہ چاہتا تھا کہ دو چار روز ہنس کے رہے
    نہ ہم فقیروں کی خاطر، نہ آشنا کے لیے
    اس شہر ِانتخاب کے پتھر اٹھا لیے
    آنسو اُبل کے دیدہٗ مضطؔر میں آگئے
    یار کو دیکھنے اغیار کا لشکر نکلا
    کچھ وہی لوگ سر فروش رہے
    شیشے میں جو ہو جائے سفارش کی پری بند
    عقل کا اندھا ہے، دیوانہ نہیں
    عرش پر جب اثر گیا ہو گا
    بَخْتَةً وہ اگر گیا ہوگا
    اٹھتے اٹھتے اٹھے نقاب بہت
    تصدیق چاہتا ہے اگر، آفتاب لا
    ہر دید حضوری تو نہ ہو وے
    زخم کریدو، شور کرو، فریاد کرو
    اس فیصلے میں میرا اگر نام آئے گا
    قصّہ یہ ہے کہ جس کو بھی دیکھا قریب سے
    یہ اک اور قیامت ڈھائی لوگوں نے
    پھر کسی سوچ نے گھونگھٹ کھولا
    میں جب بھی سر ِدیدہٗ تر گیا
    مل ہی جائے گی دل کی منزل بھی
    کسی کے روکنے سے کم رکے گا
    میں بچھڑ تو گیا ، جدا نہ ہؤا
    طائرِ غم جو کبھی نغمہ سرا ہوتا ہے
    مت بھٹکتا پھرا کرے کوئی
    ہم ہوئے، چشم ِباطنی نہ ہوئی
    نے بہ تائید تمنّا ،نے یہ تکمیلِ طلب
    چراغِ شام مرجھایا تو ہوگا
    سحر نصیب ہے، سچی دعاؤں جیسا ہے
    گل یہ کرتا ہو ا فر یاد آیا
    خود صنم اٹھ کے چلے آئے صنم خانے سے
    ہجر کی رات مختصر نہ ہوئی
    پیران ِمے کدہ ہوئے ، اہلِ حرم ہوئے
    تم نہ ٹالے سے بھی ٹلے صاحِب
    آہٹ کا اژ دہام بھی زنداں صدا کا ہے
    مضؔظر سے تو کس لیے خفا ہے
    محفل ضبط ِفغاں کی اب بھی قائل ہے
    ہم ہوئے یا کوئی رقیب ہؤا
    کس لیے تو سامنے آیا نہ تھا
    ہوس کی وہ آندھی چلی شہر میں
    ہوس کی وہ آندھی چلی شہر میں
    تو کہیں اس سے ڈر رہا تو نہیں
    ذکرِ رخسار و چشم ولب کیا ہے
    التفاتِ نگاہِ یار تو ہے
    عرش سے فرش تک، پھول سے خار تک
    عقل تنہا، دلِ ناداں تنہا
    روح زخمی ، جسم گھائل ہو گئے
    آہٹوں سے ہے سارا گھر آباد
    حیرت سے ہے خود کو تک رہا کیا
    تو قریبِ رگِ جاں تھا پہلے
    بے سبب بھی، کسی بہانے بھی
    آنسوؤں کی بھری بہار کے بعد
    تو مے کا ذکر کراےمَے گُسار! آہستہ آہستہ
    روٹھ کر جب وہ گل عذار گیا
    اپنوں ہی کا جھگڑا ہے نہ دشمن سے ہے کچھ کام
    پھر وہی ذکر سرِ وادئ سینا ہوگا
    صاحبزادہ مرزاغلام قادر صاحب کی شہادت پر
    عزیز ان کلیم شاہ اور نسیم شاہ کی وفات پر
    اچانک جھنگ کی تقدیر جاگی
    دیوار ِرنگ ہر کہیں حائل ہے راہ میں
    جن کے لیے تو خوار ہؤا شہر شہر میں
    صلح ہوگی نہ لڑائی ہوگی
    صبانے شکوہ کیا ہے قفس نشینوں سے
    فرصتِ شامِ الم پوچھتے ہیں
    یہ رستے پوچھتے ہیں کارواں سے
    کبھی ان کا لطف و کرم دیکھتے ہیں
    ذکرِ شبنم نہ فکرِ خار کرو
    کچھ یہاں اور کچھ وہاں گزری
    ترے لب پہ بھول کر بھی مرا نام تک نہ آیا
    کس لیے سائے سے ڈرتے ہو میاں!
    کہہ رہا تھانہ سن رہا کوئی
    اشک در اشک سیاحت کی ہے
    آئنے کا دل نہ اب چیریں بہت
    وہ یہیں آس پاس ہے اب بھی
    نہ ذکرِ دورئ منزل، نہ فکر ِجادہ کریں
    اپنے سائے سے ڈر رہے ہیں لوگ
    میں جب بھی اس کی محبتوں کی، صداقتوں کی کتاب لکھّوں
    دل و جاں پر اس کی حکومت تو ہے
    جس نے دیکھا اسے، دیکھتا رہ گیا
    گرنے کو ہے مکان ، مگر تم کو اس سے کیا
    چاہنے والوں کو ڈسنے والا
    شعور ِغم طبق اندر طبق ہے
    سوچتا ہوں کہ کوئی تجھؐ سے بڑا کیا ہوگا
    روح کی لذّت بن کر بر سا مولا ! تیری ذات کا نام
    راتوں کو اٹھ کے آنکھ کا آب ِحیات پی
    ہو گئے ہم تو پاش پاش بہت
    لفظ مرجائیں تو مفہوم بھی مر جاتے ہیں
    کیسے بات کروں ٹھنڈے انسانوں سے
    ہماری طرف نہ عدو کی طرف
    ہم اکیلے ہیں بے حضور نہیں
    زلف ورخ کے اسیر رہنے دے
    عاشقی جتنی وفادار ہوئی جاتی ہے
    حدِّ نظر سے دور اُفق پار دیکھنا
    یہ کون سیرِ غارِ حرا بول رہا ہے
    قصیدہ تہنیت بر موقع آغاز نشریات ایم ٹی اے
    مفہوم کو لفظوں کا در بچہ نہیں ملتا
    منزلوں کی حکایتیں کرتے
    پھسلنے کا اگر امکان ہوتا
    صبح اندیشے ، شام اندیشے
    کفر کا الزام میرے نام تھا
    یہ خلش سی جو آبلے میں ہے
    اشک جو آنکھ کے قفس میں ہے
    گھر سے نکلے تھے بے ارادہ بھی
    جلنے کا شوق تھا تو وہ جلتا تمام رات
    جلنے لگا مکاں تو گلی سوچنے لگی
    بے سبب اور بے صدا ٹوٹا
    آپ کے لب پر پیار ہو، دل میں پیار نہ ہو
    در کھٹکھٹا رہا ہے تقفس کا زمانہ کیا
    سپنوں میں بادلوں کی بارات لے کے آنا
    دو شعر
    واویلا کرتا ہؤا راون آیا ہے
    تیر جب اس کمان سے نکلا
    یہ کرم ہو گیا یا ستم ہو گیا
    ہونے کو وہ شوخ بہت مشہور ہؤا
    ہو گیا سنسان کمرہ اس کا چہرہ دیکھ کر
    یہ پیڑ کیا اُگا ہے امسال گھر کے اندر
    لذّتِ غم سے بہرہ ور کرنا
    اندر سے اگر نہ مسکراؤں
    نہیں وہ شخص تو ایسا نہیں ہے
    تری نظر کا اگر اعتبار کر لیتے
    قریب رہ کے بھی وہ ہم سے دور اتنا تھا
    جنگل ہوں قدیم خار و خس کا
    مجھ کو بھی شفق شمار کرلے
    مفہوم سے الجھوں کبھی الفاظ سنبھالوں
    دھوپ میں جو ملنے آیا ہے
    زندانِ ہجر میں کوئی روزن نہ باب تھا
    کرسی پہ بیٹھ کر بھی وہ کتنا ملول تھا
    یہ سفر بھی دور کا ہے، یہ ہے دن بھی ڈھلنے والا
    ناداں ! نا حق کیوں گھبراتا ہے
    پتھر اٹھائیے، کوئی دشنام دیجیے
    حقیقت ہے یہ استعارہ نہیں ہے
    محبت کے اظہار تک آگیا ہوں
    اسی کو قرب، اسی کو صلہ بھی کہتے ہیں
    اس قدرمت خموش جان ہمیں
    تم اپنے مرتبے کو کم نہ کرنا
    جسم میں رکھنا ، جان میں رکھنا
    عہد ہوں، ایک اذیت اپنے اندر لے کر بیٹھا ہوں
    سرِ عام سب کو خفا کر چلے
    گہرائیوں میں غم کی اتر جانا چاہیے
    راہ کی روشنی ، منزل کا اجالا دینا
    رکنے کے بعد بھی مَیں برابر سفر میں تھا
    میرا نامہ پڑھ کے میرا نامہ برہنسنے لگا
    اپنا اپنا تھا، پرایا تھا پرایا پھر بھی
    وہ اپنے حال پہ ہنستا تو ہوگا
    تیرے سوا تو کوئی مرارا ہبر نہ تھا
    ناداں اُلجھ رہے تھے عبث آفتاب سے
    دلِ نادان پہ حیران نہ مضطؔر! ہونا
    کوئی کلاہ نہ کوئی لبادہ رکھتے ہیں
    میرے اس کے درمیاں تو فاصلہ کوئی نہ تھا
    رنگ و بو کا سفر تمام ہؤا
    کس کی یاد آگئی نا گہاں شہر میں
    یوں تو کرنے کو احتیاط بھی کی
    سر چھپانے کا بندو بست تو ہے
    کوئی شکوہ، کوئی گلہ کرلیں
    یوں تو سورج سے تصادم ٹل گیا
    ذکر اپنا کبھی تمھارا کیا
    تم اگر اتنے بے اُصول نہ ہو
    سچا تو کائنات کو سچا دکھائی دے
    عمر بھر اشک کی آواز پہ چلنے والے!
    اتنا احسان اور کر دینا
    آنکھیں لے کر نکلے تھے آئینوں کے دلدادہ لوگ
    راہرو رستے میں بیٹھا رہ گیا
    وہ دل میں آکے نہ ٹھہریں، کبھی گزر تو کریں
    گھومتا پھرتا رہے ہے قیس دن بھر گاؤں میں
    رات ڈھل جائے گی، سورج کا سفر بھی ہوگا
    تم عہد کی آواز سے ڈر کیوں نہیں جاتے
    دین مانگے نہ یہ دنیا مانگے
    نظر کے لمس سے دامن نہیں بچائے گا
    سحر پسند تو سب ہیں، سحر چشیدہ نہیں
    ساز آواز میں ڈھل جاتا ہے
    چادر سروں پہ کوئی تو اے آسمان! دے
    اس کے دل میں اب بھی احساسِ زیاں کوئی نہ تھا
    اوّل آئینے سے الفت ہو گئی
    لمحے بیچ دیے، صدیاں نیلام کرو
    آئی ہے اس کی یادیوں سُونے گھروں کے بیچ
    آنکھ کے آسیب جب تک جانہ لیں
    سنّاٹوں سے کہہ دو یہ گھر میرا ہے
    اشک در اشک ابتدا میں کہیں
    سر ِمقتل وفا کے حوصلے بھی
    بس اک اشک سے دھل گئے سارے سینے
    حسن ِنظر سے جب بھی ہؤا حسن کا ملاپ
    وہ پل صراطِ صدا پار کر ہی جائے گا
    راہ پکارے گی، چورستہ بولے گا
    مجھ کو اپنے غم کا اندازہ نہ تھا
    موسم کے مراحل سے گزر جائے گا پانی
    نہ سہی دوست ، کوئی دشمن ِکامل اٹّھے
    سولی کو جو سجا سکے وہ سر تلاش کر
    روح کے پتھر پکھل جانے بھی دے
    جو لمحہ بھی اشکوں سے لا دا گیا
    یوں نہ مجبور کو مسند پہ بٹھایا جائے
    ہر پھول انتخاب ہے، خوشبو لباس ہے
    آنسو تھے تو آنکھ کا زیور ہو جاتے
    کیوں من وتو کی نہ تفریق مٹادی جائے
    اپنے اندازے میں اوروں کا نہ اندازہ ملا
    ہر کوئی شہر بدر لگتا ہے
    عشق کا جرم مرے نام لگایا جائے
    خواب چہرے پر سجائے ، دل میں تعبیریں لیے
    بن گئی زادِ سفر بے سرو سامانی بھی
    کبھی یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ گلہ نہ کرے
    اوڑھ کر آئین کا جھوٹا لبادہ اس برس
    ہمیں ساتھ اے نامہ بر! لیتے جانا
    شیشے نہیں ٹوٹے ہیں کہ پتھر نہیں بولا
    درود تیرےؐ لیے ہے، سلام تیرا ؐہے
    تم نے اگر نہ پھول کی حرمت بحال کی
    زخم بولے تو جیسے بھر سے گئے
    روشنی اکیلی تھی صبح و شام سے پہلے
    سُن!محوِ گفتگو ہے یہ کون آسمان سے
    میں ترےؐ عہد میں اگر ہوتا
    تمہید کی اتنی بھی ضرورت تو نہیں تھی
    آہوں کی بانہیں
    اوّل تو اپنی آنکھ کا پانی لہو کرو
    ریگ زاروں میں چاندنی بوئی
    کیا کیا نہ توؐ نے ہم پر احسان کر دیا ہے
    اس سفر کا کبھی انجام نہ ہونے پائے
    چاند چھپا، تارے مرجھائے ، نرگس ہے بیمار
    فاصلے ان کے ہمارے درمیاں کہنے کو ہیں
    پسِ لمحہ جولمحہ سو رہا ہے
    اوڑھ کر آواز کو تقریر آدھی رہ گئی
    تری چُپ نامہ بر! اچھی نہیں ہے
    شہر کے ہوں یا گاؤں کے
    ملاّ کو کبھی اتنا تنومند نہ کرنا
    مرے اندر لڑائی ہو رہی ہے
    یہ نشاں ہے جو بے نشان سا ایک
    ایک لکنت کی ہے زبان میں کیا!
    دل نہیں آج آشنا دل کا
    چھیڑ کر ہم نے سلسلہ دل کا
    اسے اندیشہ ہے گر کر سنبھلنے کا
    سوچتا ہوں تو تنہا تنہا لگتا ہوں
    کوئی شکوہ نہ شکایت نہ گلہ لکھا ہؤا
    اشک بر سے تو اس قدر برسے
    اصل کی نقل ہوں، نشانی ہوں
    کون کہتا ہے اسے آدھا نگل
    یہ غزلیں مری ، یہ ترانے مرے
    خام ہوں، گمنام ہوں ، مستور ہوں
    کہیں گرنا، کہیں سنبھلنا تھا
    حسن مجبور ہو گیا ہوگا
    آپ اگر بدگمان اتنے ہیں
    بے نظر بھی ہوں، بے ادب بھی نہیں
    وصفِ جمالِ یار پر ختم ہے میری شاعری
    اک حسیں پر جسم اور جاں وار کر
    ناز ہے مجھ کو بھی ان کے پیار پر
    حریم ِہجر میں کیسا چراغ روشن ہے
    کب سے بیٹھے ہو بے یقینے سے
    کیوں اشک آنکھ سے باہر نکل کے دیکھتے ہیں
    محفل کا دل اداس ہے ، ساقی خموش ہے
    وہ جلال اور وہ جمال کہاں
    غم ہائے روزگار کی نظروں نے کھالیاں
    جہاں عشق نے برچھیاں ماریاں
    صدمئہ رنگ سے جنگل جاگا
    پھر شبِ دیجور دروازہ کھلا
    اوڑھ لینے کو بدن بھی ہوگا
    آنکھ سے ٹپکہ، لہو بن کر جلا
    نعرہ زن بزم میں جب تو ہوگا
    اپنے سائے سے ڈر رہی ہے رات
    وہ نہ تنہا مجھ سے کوسوں دور تھا
    خود سے مل کر ہوئے اداس بہت
    رات پھر آئی امتحاں کی طرح
    رت بدلی، سب ماند پڑے ہیں غم کے کاروبار
    جسم زخمی ہے اور گیلے پر
    اے خطیِب خوش بیاں ! آدیکھ شانِ امتیاز
    سنائی دے ہے یوں پائل کی آواز
    خواہشوں نے گھڑی ہیں تصویریں
    گھڑی دو گھڑی تو بھی رولے میاں!
    آرزو کے اسیر شہزادو!
    بے نواؤں کے یار! آجاؤ
    گناہ گار ہوں مولی !مرے گناہ نہ دیکھ
    یاد کی ہے ہے اور پی سی ہے
    ان آنکھوں میں جو ہلکی سی لالی ہے
    وہ بے اصول اگر با اصول ہو جائے
    ایسا نادان تو دیکھا نہ سنا تھا پہلے
    ھصہ فارسی
    حصہ پنجابی
    اضافہ ایڈیشن سوم
    متفرق اشعار
    دیدہٗ نمناک کا تازہ شمارہ دیکھنا
    پروفیسر چوہدری محمد علی مضطر عارفی
    جاگ اے شرمسار! آدھی رات

page

of

633